27 جون، 2022، 1:23 PM
Journalist ID: 2393
News ID: 84803607
T T
0 Persons

لیبلز

بحران کی پمپنگ کی حکمت عملی

27 جون، 2022، 1:23 PM
News ID: 84803607
بحران کی پمپنگ کی حکمت عملی

تہران، ارنا - کئی دنوں سے افغان کے علاقے بلخاب کا بحران افغانستان کی سب سے اہم خبر ہے، زلزلے سے قبل بھی یہ بحران بعض سائٹس، ورچوئل چینلز، سائبر اسپیس اور خطے میں ٹی وی نیٹ ورکس میں سب سے اہم خبر تھی۔

کچھ لوگ ان واقعات کو انقلاب سےاور کچھ مزاحمت سے تعبیر کرتے ہیں، علاقائی مسائل کے تجزیہ نگار 'سیدرضا صدرالحسینی کے اس مضمون میں ہم اس اہم سوال کہ، موجودہ حالات میں افغانستان میں اس خونین بحران پیدا کرنے سے کس کو فائدہ ہے ؟ کا جواب دینا چاہتے ہیں۔
 بلخاب افغانستان کے صوبے سر پل کی سب سے دشوار گزار وادیوں میں سے ایک ہے جو اپنے جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے ناقابل تسخیر اڈہ سمجھی جاتی ہے۔ اس جغرافیائی محل وقوع نے ہمیشہ مختلف ادوار میں اس خطے کو اس وقت کے حکمرانوں کے خلاف ہزارہ لوگوں کی مزاحمت کا گڑھ بنا رکھا ہے۔

بحران کی پمپنگ کی حکمت عملی

مولوی مہدی کوں ہے؟

ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے مہدی مجاہد ' مولوی مہدی کےنام سے مشہور ہے جو افغاستان کے صوبے سرپل کے علاقے بلخاب میں رہتا ہے۔

وہ سنیئر افغان سیاستدان 'محمد محقق' کے ساتھ مل کر کام کرتا تھا جو افغان نیشنل سیکیورٹی سروس  کی جانب سے مختلف وجوہات کی بنا پر گرفتار اور قید کیا گیا اور انہوں نے جیل میں طالبان سے ملاقات کی۔ رہائی کے بعد وہ اس گروپ میں شامل ہو گئے اور انہوں نے طالبان کے ساتھ مل کر اس وقت کی افغان حکومت کے خلاف مقابلہ کیا۔

مولوی مہدی طالبان کی حکمرانی کے پہلے مہینوں میں تھوڑے وقت کے لیے صوبے بامیان کی انٹیلی جنس سروس کے سربراہ بن گئے، لیکن کچھ جرائم جو طالبان نے اس کو"من مانی کارروائیاں" قرار دیا، کی وجہ سے انھیں معزول کردیا گیا اور کابل طلب کیا گیا۔

طالبان نے انہیں (مولوی مہدی) کابل میں ایک عہدہ دینے کی کوشش کی لیکن انہوں نے اس تجویز کو  انکار کر دیا اور مارچ  2022میں اپنے آبائی شہر 'بلخاب' واپس چلا گیا۔

مولوی مہدی اس وقت بلخاب میں مقیم ہیں، جس کے لیے یہ علاقہ دو وجوہات کی بنا پر اہم ہے۔ پہلا یہ کہ وہاں اس کی جائے پیدائش ہے اور دوسرا طالبان کے ساتھ ممکنہ جنگ کے لیے اس علاقے کی مخصوص جغرافیائی پوزیشن ہے۔

کچھ رپورٹوں کے مطابق، طالبان سے مولوی مہدی کی حوصلہ شکنی کے بعد، کچھ سابق افغان سیاسی عناصر انہیں مزاحمت کرنے اور طالبان سے لڑنے پر اکسانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ان رپورٹوں کے مطابق اس کے پاس 400 کے قریب بندوق بردار اور مسلح افراد ہیں اور ان کے عوامی بازی (پاپولسٹ بیانات )کے استعمال کی وجہ سے بلخاب کے کچھ شیعہ لوگ ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔

گزشتہ نو مہینوں میں طالبان کی پالیسی یہ تھی کہ افغانستان میں طاقت کا کوئی جزیرہ موجود نہیں ہونا چاہیے اور طالبان کی حکومت نے کہا کہ طاقت کے جزیروں کو برداشت نہیں کر سکتی ہے اور گزشتہ تین ماہ میں انہوں نے مذاکرات کے ذریعے طاقت کے اس جزیرے کو تحلیل کرنے کی کوشش کی ہے۔
اسی لیے طالبان کی طرف سے دو وفود بلخاب بھیجے گئے ہیں تاکہ مولوی مہدی کو راضی کریں۔ لیکن دونوں وفود انھیں کابل واپس آنے پر ناکام رہے ہیں۔ تاہم، طالبان مولوی مہدی کو بلخاب سے نکالنے اور کابل منتقل کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔

مولوی مہدی کی پالیسی

کابل سے بلخاب میں بھیجنے والے وفود کے ساتھ مذاکرات میں مولوی مہدی کی پالیسی یہ ہے کہ بلخاب اور سر پل کے لوگوں کے مطالبات کو پورا کیا جانا چاہیے۔ ان مطالبات کی سرفہرست یہ ہے کہ انہیں "افغانستان کے شیعوں کا امیر" مقرر کیا جائے اور  صرف وہ ان شیعوں کے بارے میں حتمی فیصلہ کر سکے ۔ بلاشبہ یہ مطالبہ طالبان کے لیے  قابل قبول نہیں ہے۔

اب صورتحال بہت نازک ہے، اور امکان ہے کہ طالبان مولوی مہدی کے کیس کو انٹیلی جنس سروس سے وزارت دفاع کے حوالے کر دیں ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ دونوں فریقیں مذاکراتی مرحلے سے جنگ کے مرحلے میں داخل ہو جائیں ۔

اس خطے کی جنگ بلخاب کو دوسرے پنجشیر میں تبدیل کر سکتی ہے۔ اس جنگ کے نتیجے میں شیعہ لوگوں کی ہلاکتوں کا امکان بہت زیادہ ہے اور جنگ کے بعد پنجشیر کی طرح طالبان کی جانب سے اس علاقے کے لوگوں کو غیر مسلح کرنے سے اچھے نتائج برآمد نہیں ہوں گے تو ہمیں ہر ممکن طریقے سے طالبان اور مولوی مہدی کے درمیان جنگ کو روکنا ہوگا۔

اسلامی جمہوریہ ایران نے اس حوالے سے طالبان سے اپیل کی ہے کہ وہ فوجی کارروائی سے گریز کریں اور اس تنازعہ کے خاتمے کیلیے اس شخص کو ایک اور موقع دیں۔

لہذا ایران نے شیعہ علماء کی کونسل کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے مولوی مہدی سے بات چیت کیلیے ایک وفد بلخاب بھیجنے کی کوشش کی ۔ اس  اقدام کے دو فائدے ہیں پہلا جنگ کے روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور دوسرا شیعہ علماء کی پوزیشن جو طالباں کی جانب سے کمزور ہو گئی ہے پھر مضبوط ہوگی۔

بدقسمتی سے یہ واقعہ اور اسی طرح کے دیگر واقعات جن کا نتیجہ نقل مکانی، بے گھری، زخمی اور معذوری اور افغانستان کے شیعہ لوگوں کا قتل عام کے سوا کچھ نہیں ہے، کا انتظام اس ملک سے باہر کیا جاتا ہے اور ان واقعات کی جڑ بیرون ملک میں ہے۔

یہ سازش افغانستان کے کچھ پڑوسیوں جس ملک(افغانستان) سے امریکی جارح فورسز کے انخلاء کے فوراً بعد افغانستان میں داخل ہونا اور کابل کے ہوائی اڈے اور سکیورٹی مراکز پر کنٹرول حاصل کرنا چاہتے تھے، کی جانب سے ہے۔

اس کے علاوہ افغانستان کے کچھ سابق رہنما اس ملک میں واپسے آگئے ہیں اور وہ انٹیلی جنس سروسز ، خطے کے پیٹرو ڈالرز اور امریکی انتظامیہ کی مدد کے ساتھ اس ملک کے مظلوم شیعہ لوگوں کے ذریعے افغانستان کو طالبان سے آزاد کرنا چاہتے ہیں۔

 اسی لیے پہلے قدم میں وہ جذبات کو بھڑکانا، شیعوں کو قتل کرنا اور عوام کی اکثریت کو ایران میں ہجرت پر مجبور کرنا چاہتے ہیں تا کہ ایران کے ممکنہ ردعمل کو میڈیا میں اپنے مفاد میں دکھائیں اور آخر کار بہت احترام اور وقار کے ساتھ اپنے مفرور چیف (امریکہ) کو ملک میں واپس لائیں۔

قابل ذکر ہے کہ انسانی حقوق کے تمام کارکنان اور افغانستان کی سرنوشت کے تمام ہمدردوں کو کسی بھی قومیت اور مذہب سے قطع نظر اس بات پر ہوشیار رہنا چاہیے کہ درپیش سازش بہت پیچیدہ اور کثیر الجہتی ہے۔

ایک طرف سے مفرور اور زخمی امریکہ اور دوسری طرف سے ہمسایہ ممالک کی انٹیلی جنس سروسز، ناکام اور زخمی وہابیت،افغانستان میں داعش دہشتگرد گروپ کی منتقلی، وہ حکومت جس کو کوئی ملک کی طرف تسلیم نہیں کیا گیا ہے،درکار فوجی اور سیکورٹی فورسز کا فقدان، نہتے اور مظلوم عوام، معدنیات سے مالا مال ملک، پانی سے مالا مال سرزمین اور سیاسی، سماجی، سلامتی اور معاشی مسائل نے اس ملک کے عوام اور حکومت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
اسٹریٹجک نقطہ نظر سے افغانستان اور ایک ایسے ملک جس( ایران) نے گزشتہ 40 سالوں میں افغان پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد کی میزبانی کی ہے، کے لیے سب سے پہلا اور اہم مسئلہ افغانستان کی سلامتی اور اقتصادی ترقی ہے۔

دونوں قوموں اور ممالک کو ایک دوسرے سے مل کر نامعلوم میڈیا، مفرور اور محلات میں مقیم افراد کو افغانستان کے مظلوم عوام کے ذہنوں اور خیالات کو مشتعل کرنے اور اس ملک میں جنگ اور خونریزی کو ہوا دینے اور برادرانہ قتل عام پر عوام کے اکسانے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔

ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے @IRNA_Urdu

متعلقہ خبریں

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .